@catzoniacheng: Bila harini grooming banyak, tapi esok offday terus berlari ya 😂😂#catzoniacheng #melaka #cat #catsoftiktok #fyp #viral

Toebeannies
Toebeannies
Open In TikTok:
Region: MY
Monday 10 April 2023 07:11:18 GMT
149
8
0
0

Music

Download

Comments

There are no more comments for this video.
To see more videos from user @catzoniacheng, please go to the Tikwm homepage.

Other Videos

یکم نومبر 1970 کی صبح کراچی ایئرپورٹ کی فضائیں معمول کے برعکس غیر معمولی سرگرمیوں سے لبریز تھیں۔ پاکستان ایک اہم بین الاقوامی مہمان، پولینڈ کے سربراہِ مملکت مارشل ماریان اسپائچالسکی، کا خیرمقدمی انتظام کر رہا تھا۔ ان کا یہ دورہ پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے فروغ اور خیرسگالی کی علامت سمجھا جا رہا تھا۔ ایئرپورٹ پر اعلیٰ سطح کا استقبالیہ پروٹوکول ترتیب دیا گیا تھا جس میں سندھ کے گورنر، سینئر پاکستانی فوجی افسران، پولش سفارتکار، بین الاقوامی و مقامی صحافی، اور فوٹوگرافرز شامل تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سب کچھ معمول کے مطابق اور پُرامن انداز میں جاری ہے، لیکن کسی کو علم نہ تھا کہ یہ دن ایک غیر معمولی سانحہ بننے جا رہا ہے۔ جونہی مارشل اسپائچالسکی کا خصوصی طیارہ رن وے پر اترا، استقبال کے لیے قطار میں کھڑے وفود متحرک ہوئے۔ اسی لمحے اچانک ایک پی آئی اے کی کیٹرنگ وین منظر میں داخل ہوئی۔ یہ وین اس مخصوص مقام پر موجود نہیں ہونی چاہیے تھی، اور اس کی آمد محض اتفاقی نہیں تھی۔ وین کا ڈرائیور، محمد فیروز عبداللہ، جو پی آئی اے کا باقاعدہ ملازم تھا، نے غیر متوقع طور پر یو ٹرن لیا اور پوری رفتار کے ساتھ پروٹوکول لائن کی طرف وین دوڑا دی۔ عینی شاہدین کے مطابق وین کے ڈرائیور نے تیزی سے گاڑی بڑھاتے ہوئے زور سے نعرہ لگایا: “ڈاؤن وِد کمیونزم! میں نے اپنا مشن مکمل کر لیا ہے!”۔ یہ لمحہ ایسا تھا کہ چند سیکنڈ کے اندر منظر خوفناک اور خونی بن گیا۔ وین تیزی سے پروٹوکول کی قطار میں گھس گئی اور براہِ راست افراد سے ٹکرا گئی۔ اس حملے میں چار افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ ان میں پولینڈ کے نائب وزیر خارجہ زیگفریڈ وولنیاک، پاکستان انٹیلیجنس بیورو کے ڈپٹی ڈائریکٹر چودھری محمد نذیر، اور دو سرکاری فوٹوگرافرز، اشرف بیگ اور محمد یاسین شامل تھے۔ اس کے علاوہ متعدد افراد شدید زخمی ہوئے جن میں پولینڈ کے سفیر بھی شامل تھے۔ حیرت انگیز طور پر مارشل اسپائچالسکی اس حملے میں محفوظ رہے، اگرچہ یہ حملہ اُنہی کو نشانہ بنانے کی نیت سے کیا گیا تھا۔ اس واقعے کے پیچھے کی محرکات مکمل طور پر نظریاتی اور مذہبی تھیں۔ محمد فیروز نے اپنی گرفتاری کے بعد اعتراف کیا کہ وہ کمیونزم کا سخت مخالف ہے اور اُس نے یہ قدم اسلام کے تحفظ اور اشتراکیت (کمیونزم) کے خلاف جہاد کے طور پر اُٹھایا۔ اُس کا مقصد پولینڈ کے کمیونسٹ صدر کو قتل کرنا تھا تاکہ دنیا کو یہ پیغام دے سکے کہ مسلمان کمیونزم کو قبول نہیں کرتے۔ واقعے کے فوراً بعد پاکستان کی حکومت نے انتہائی سنجیدہ ردعمل ظاہر کیا۔ اُس وقت کے صدر جنرل یحییٰ خان، جو بیرون ملک کے دورے پر تھے، نے فوری طور پر اپنا دورہ منسوخ کر دیا اور واقعے کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیا۔ کراچی ایئرپورٹ کے سیکیورٹی سربراہ اور دیگر ذمہ دار افسران کو معطل کر دیا گیا۔ سیکیورٹی انتظامات پر شدید تنقید کی گئی، اور پورے ملک میں اعلیٰ سطح پر سیکیورٹی پالیسیوں پر نظرثانی کی گئی۔ مزید برآں، ایک خصوصی فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا جس میں حملہ آور محمد فیروز کو قتل عمد اور دہشت گردی کا مرتکب پایا گیا۔ عدالت نے 10 مئی 1971 کو اُسے سزائے موت سنائی۔ اس عدالتی فیصلے سے نہ صرف انصاف کی فراہمی کا تاثر دیا گیا بلکہ بین الاقوامی برادری کو یہ پیغام بھی پہنچایا گیا کہ پاکستان ایسے واقعات پر چشم پوشی نہیں کرے گا۔ اس حملے کے بعد پاکستان اور پولینڈ کے تعلقات میں گہرے بادل چھا گئے۔ پولینڈ میں اس واقعے پر شدید غم و غصہ دیکھنے کو ملا اور بین الاقوامی میڈیا نے واقعے کو پاکستان میں سیکیورٹی کی ناکامی قرار دیا۔ مغربی دنیا میں پاکستان کی ساکھ کو دھچکہ لگا، اور کئی ممالک نے پاکستان سے سیکیورٹی تعاون پر نظرثانی کی۔ اس واقعے کے بعد وی وی آئی پی سیکیورٹی پروٹوکول میں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں، اور ہوائی اڈوں کی نگرانی اور داخلی سیکیورٹی کے نظام کو ازسرِ نو منظم کیا گیا۔ یہ واقعہ تاریخ میں ایک سنگین یادگار کے طور پر محفوظ ہے۔ یہ نہ صرف بین الاقوامی تعلقات میں نازک توازن کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، بلکہ پاکستان کی داخلی سیکیورٹی اور نظریاتی انتہاپسندی جیسے حساس موضوعات پر بھی غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ آج بھی یہ واقعہ سیکیورٹی اداروں اور تاریخ کے طالبعلموں کے لیے ایک سبق ہے کہ ایک نظریاتی سوچ کا حامل فرد اگر ادارہ جاتی خامیوں سے فائدہ اٹھا لے تو وہ عالمی سطح پر کیسے تباہ کن نتائج پیدا کر سکتا ہے۔
یکم نومبر 1970 کی صبح کراچی ایئرپورٹ کی فضائیں معمول کے برعکس غیر معمولی سرگرمیوں سے لبریز تھیں۔ پاکستان ایک اہم بین الاقوامی مہمان، پولینڈ کے سربراہِ مملکت مارشل ماریان اسپائچالسکی، کا خیرمقدمی انتظام کر رہا تھا۔ ان کا یہ دورہ پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے فروغ اور خیرسگالی کی علامت سمجھا جا رہا تھا۔ ایئرپورٹ پر اعلیٰ سطح کا استقبالیہ پروٹوکول ترتیب دیا گیا تھا جس میں سندھ کے گورنر، سینئر پاکستانی فوجی افسران، پولش سفارتکار، بین الاقوامی و مقامی صحافی، اور فوٹوگرافرز شامل تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سب کچھ معمول کے مطابق اور پُرامن انداز میں جاری ہے، لیکن کسی کو علم نہ تھا کہ یہ دن ایک غیر معمولی سانحہ بننے جا رہا ہے۔ جونہی مارشل اسپائچالسکی کا خصوصی طیارہ رن وے پر اترا، استقبال کے لیے قطار میں کھڑے وفود متحرک ہوئے۔ اسی لمحے اچانک ایک پی آئی اے کی کیٹرنگ وین منظر میں داخل ہوئی۔ یہ وین اس مخصوص مقام پر موجود نہیں ہونی چاہیے تھی، اور اس کی آمد محض اتفاقی نہیں تھی۔ وین کا ڈرائیور، محمد فیروز عبداللہ، جو پی آئی اے کا باقاعدہ ملازم تھا، نے غیر متوقع طور پر یو ٹرن لیا اور پوری رفتار کے ساتھ پروٹوکول لائن کی طرف وین دوڑا دی۔ عینی شاہدین کے مطابق وین کے ڈرائیور نے تیزی سے گاڑی بڑھاتے ہوئے زور سے نعرہ لگایا: “ڈاؤن وِد کمیونزم! میں نے اپنا مشن مکمل کر لیا ہے!”۔ یہ لمحہ ایسا تھا کہ چند سیکنڈ کے اندر منظر خوفناک اور خونی بن گیا۔ وین تیزی سے پروٹوکول کی قطار میں گھس گئی اور براہِ راست افراد سے ٹکرا گئی۔ اس حملے میں چار افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ ان میں پولینڈ کے نائب وزیر خارجہ زیگفریڈ وولنیاک، پاکستان انٹیلیجنس بیورو کے ڈپٹی ڈائریکٹر چودھری محمد نذیر، اور دو سرکاری فوٹوگرافرز، اشرف بیگ اور محمد یاسین شامل تھے۔ اس کے علاوہ متعدد افراد شدید زخمی ہوئے جن میں پولینڈ کے سفیر بھی شامل تھے۔ حیرت انگیز طور پر مارشل اسپائچالسکی اس حملے میں محفوظ رہے، اگرچہ یہ حملہ اُنہی کو نشانہ بنانے کی نیت سے کیا گیا تھا۔ اس واقعے کے پیچھے کی محرکات مکمل طور پر نظریاتی اور مذہبی تھیں۔ محمد فیروز نے اپنی گرفتاری کے بعد اعتراف کیا کہ وہ کمیونزم کا سخت مخالف ہے اور اُس نے یہ قدم اسلام کے تحفظ اور اشتراکیت (کمیونزم) کے خلاف جہاد کے طور پر اُٹھایا۔ اُس کا مقصد پولینڈ کے کمیونسٹ صدر کو قتل کرنا تھا تاکہ دنیا کو یہ پیغام دے سکے کہ مسلمان کمیونزم کو قبول نہیں کرتے۔ واقعے کے فوراً بعد پاکستان کی حکومت نے انتہائی سنجیدہ ردعمل ظاہر کیا۔ اُس وقت کے صدر جنرل یحییٰ خان، جو بیرون ملک کے دورے پر تھے، نے فوری طور پر اپنا دورہ منسوخ کر دیا اور واقعے کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیا۔ کراچی ایئرپورٹ کے سیکیورٹی سربراہ اور دیگر ذمہ دار افسران کو معطل کر دیا گیا۔ سیکیورٹی انتظامات پر شدید تنقید کی گئی، اور پورے ملک میں اعلیٰ سطح پر سیکیورٹی پالیسیوں پر نظرثانی کی گئی۔ مزید برآں، ایک خصوصی فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا جس میں حملہ آور محمد فیروز کو قتل عمد اور دہشت گردی کا مرتکب پایا گیا۔ عدالت نے 10 مئی 1971 کو اُسے سزائے موت سنائی۔ اس عدالتی فیصلے سے نہ صرف انصاف کی فراہمی کا تاثر دیا گیا بلکہ بین الاقوامی برادری کو یہ پیغام بھی پہنچایا گیا کہ پاکستان ایسے واقعات پر چشم پوشی نہیں کرے گا۔ اس حملے کے بعد پاکستان اور پولینڈ کے تعلقات میں گہرے بادل چھا گئے۔ پولینڈ میں اس واقعے پر شدید غم و غصہ دیکھنے کو ملا اور بین الاقوامی میڈیا نے واقعے کو پاکستان میں سیکیورٹی کی ناکامی قرار دیا۔ مغربی دنیا میں پاکستان کی ساکھ کو دھچکہ لگا، اور کئی ممالک نے پاکستان سے سیکیورٹی تعاون پر نظرثانی کی۔ اس واقعے کے بعد وی وی آئی پی سیکیورٹی پروٹوکول میں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں، اور ہوائی اڈوں کی نگرانی اور داخلی سیکیورٹی کے نظام کو ازسرِ نو منظم کیا گیا۔ یہ واقعہ تاریخ میں ایک سنگین یادگار کے طور پر محفوظ ہے۔ یہ نہ صرف بین الاقوامی تعلقات میں نازک توازن کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، بلکہ پاکستان کی داخلی سیکیورٹی اور نظریاتی انتہاپسندی جیسے حساس موضوعات پر بھی غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ آج بھی یہ واقعہ سیکیورٹی اداروں اور تاریخ کے طالبعلموں کے لیے ایک سبق ہے کہ ایک نظریاتی سوچ کا حامل فرد اگر ادارہ جاتی خامیوں سے فائدہ اٹھا لے تو وہ عالمی سطح پر کیسے تباہ کن نتائج پیدا کر سکتا ہے۔

About