@walimuhammadkhan: کچھ آیات بھی نازل ہوئی تھی اتنا ہی نہیں آپ کی چار بیٹیاں یعنی زینب رقیہ ام کلثوم اور بی بی فاطمہ کے ساتھ ساتھ آپ کے بیٹے قاسم بھی اسی گھر کے اندر پیدا ہوئے تھے کیا آپ جانتے ہیں کہ اس گھر کے ساتھ کیا کیا گیا دوستوں پہلے تو اس گھر کو گرایا گیا اور بعد میں مسافروں کے لیے اس جگہ کو بیت الخلا میں بدل دیا گیا مسلمانوں کے تاریخ کا پہلا اسکول کے جس کو دار ارقم کہا جاتا ہے اور جہاں پر نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنے صحابہ کو قران سکھایا کرتے تھے اس جگہ کو بھی اب مسجد حرام کی تو میں ختم کر دیا گیا ہے جنگ احد کے ٹائم میں جیسا کہ آپ سبھی لوگوں نے بھی پڑھا ہوگا کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہو گئے تھے ان دانتوں کو جہاں پر دفنایا گیا تھا اس جگہ کو بھی ہمیشہ سے ہی ایک نشانی کے طور پر یاد رکھا گیا تھا مگر اب اس نشانی کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا گیا ہے وہیں بیت الحزن کے جو مدینہ شہر کے پکی قبرستان میں موجود ایک ٹوٹی ہوئی عمارت ہے کہ جہاں پر حضرت بی بی فاطمہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی وفات کے بعد اکثر اپنا وقت گزارا کرتی تھی یہاں پر عبادت کیا کرتی تھی اور نبی علیہ السلام کو یاد کیا کرتی تھیں یہاں پر ایک کمرہ ہوا کرتا تھا کہ جس کے اوپر گمبد ہوا کرتا تھا اس گنبد کو بھی بعد میں ختم کر دیا گیا پوری دنیا کے انسانوں کی ماں یعنی کہ بی بی حوا کی قبر کے جو جدہ میں ہوا کرتی تھی اس کو بھی کنکریٹ کی دیواروں کے ذریعے سے پوری طرح سے کور کر دیا گیا ہے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ کی قبر کے نشانوں کو بھی ختم کر دیا گیا ہے اس کے علاوہ نبی علیہ السلام کے چچا یعنی کہ حضرت حمزہ کے نام کی یہ جو مسجد ہوا کرتی تھی اور جو ان کا گھر ہوا کرتا تھا اس کو بھی سعودی گورنمنٹ کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے صرف ان کی قبر کے ہی چاروں طرف معمولی سی کچھ نشانیاں باقی رکھی گئی ہیں تاکہ ان کی قبر کو پہچانا جا سکے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی والدہ یعنی کہ بی بی آمنہ کی قبروں کے نشان کو بھی پوری طرح سے ختم کر دیا گیا ہے چند اینٹ اور پتھروں کی مدد سے ہی ہم لوگ پہچان پاتے ہیں کہ یہ نبی علیہ السلام کی ماں کی قبر ہے اس کے علاوہ بھی ایسی بہت ساری مسلم تاریخی قیمتی عمارتیں اور یادگاریں ہیں کہ جو پچھلے کچھ سالوں کے اندر ہی سعودی گورنمنٹ کے ستم کا شکار ہو کر ختم ہو گئی اور ان ساری عمارتوں اور قیمتی چیزوں کو ایک تحریر میں مینشن کرنا بھی ممکن نہیں ہے تاریخ کے اس مشہور قلعے کو بھی گرا دیا گیا ہے کہ جس کو سلطنت عثمانیہ کے دور میں 19ویں صدی میں پہاڑ کی اونچائیوں پر بنایا گیا تھا اور یہ سلطنت عثمانیہ نے اس لیے بنوایا تھا تاکہ مسجد الحرام کی اچھی طرح سے حفاظت کی جا سکے اور اوپر سے اس کے اوپر نگرانی کی جا سکے حالانکہ سعودی عربیہ کی لوکل لوگ بھی اس چیز کو بڑی اچھی طرح سے سمجھتے ہیں اور ان ساری چیزوں کو لے کر بہت زیادہ پریشان بھی رہتے ہیں مگر ظاہر ہے حکومت کے سامنے وہ لوگ کر بھی کیا سکتے ہیں انٹرسٹنگ بات یہ ہے کہ ایک طرف سعودی عربیہ یورپ کو کاپی کرتے ہوئے ماڈرنائز تو ہو رہا ہے اور اس کی دیکھا دم کے لیے اٹھی اونچی بلڈنگیں تو بنا رہا ہے مگر وہ یورپ سے یہ نہیں سیکھ رہا ہے کہ آخر اپنی وراثت کی حفاظت کیسے کی جا سکتی ہے اور ہم کو اپنی تاریخی چیزوں کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے کیونکہ دوستوں یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یورپ بھلے ہی آج کے دور میں بہت زیادہ ایڈوانس ہو چکا ہے اور ٹیکنالوجی سے مالا مال ہو چکا ہے مگر اس کے باوجود بھی اگر آپ لوگ غور کریں گے تو آپ لوگ معلوم پائیں گے کہ یورپین لوگ آج بھی نہ صرف اپنی چیزوں کی حد سے زیادہ حفاظت کرتے ہیں بلکہ ان کو بہت زیادہ اہمیت بھی دیتے ہیں خاص طور سے جب آپ لوگ یو کے اور اٹلی جیسے ملکوں کا دورہ کریں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ انہوں نے ہزاروں اور سینکڑوں سال پرانی اپنی تاریخی چیزوں کو کس طریقے سے محفوظ کر رکھا ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ لوگ ان ساری چیزوں کو فخریہ یعنی پراؤڈلی پوری دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں چونکہ ظاہر ہے دوستوں کوئی بھی عقلمند انسان اپنے کو کبھی نہیں بھولتی ہے کیونکہ اگر تم چاہتے ہو کہ تاریخ تمہیں یاد رکھے تو تم اپنا تاریخ ہمیشہ یاد رکھو سلطنت عثمانیہ کی ترک حکمرانوں نے بھی مکہ اور مدینہ جیسی پاک شہروں پر ایک لمبے وقت تک حکومت کی تھی ان لوگوں کے دور میں بھی مکہ اور مدینہ شہروں میں بڑی بڑی تعمیرات ہوئیں بہت ساری نئی نئی چیزوں کو ڈیولپ کیا گیا مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے کبھی بھی تاریخی چیزوں کے ساتھ کوئی چڑھائی نہیں کی تھیں بلکہ ان کے دور میں تو مکہ اور مدینہ کا جس طرح سے احترام کیا جاتا تھا اس کی مثالیں دور دور تک نہیں ملتی