@sandinurr: Membalas @user14930844210858 BOP na badag🤣🤣 #terimakasihorangbaik

ieusandinur
ieusandinur
Open In TikTok:
Region: ID
Saturday 15 June 2024 10:48:05 GMT
46954
519
29
5

Music

Download

Comments

only_nurr4
nurraa :
braha duit eta kang
2024-07-12 12:40:36
0
kembali_kejalanmu01
bismillahirohmanirohim :
enya da checker 😁na MGI
2024-06-25 05:50:35
0
elly.rahmawati48
Elly Rahmawati🇮🇩🇰🇷 :
rezeki moal kamna yah bang aya wae 🤣
2024-06-23 15:09:47
0
reshayuliani
Echa :
langganan CBU 🫶
2024-06-22 18:30:48
0
reyn.simatupang
Reyn Simatupang :
buka koprasi ku rasa abang ni, atau cicilan panci
2024-06-19 15:03:07
0
To see more videos from user @sandinurr, please go to the Tikwm homepage.

Other Videos

(Part 1) *اسلام کے درخشاں ستارے* ضرار بن ازورؓ ایک ایسے انسان تھے کہ اس دور میں دشمن ان کے نام سے کانپ اٹھتے تھے اور ان کی راہ میں آنے سے کتراتے تھے۔ جنگ ہوتی تھی تو سارے دشمن اور فوجیں زرہ اور جنگی لباس پہن کر جنگ لڑتے تھے۔ لیکن آفرین حضرت ضرار زرہ تو درکنار اپنا کرتا بھی اتار دیتے تھے۔لمبے بال لہراتے چمکتے بدن کے ساتھ جب میدان میں اترتے تھے تو ان کے پیچھے دھول نظر آتی تھی اور ان کے آگے لاشیں۔ اتنی پھرتی، تیزی اور بہادری سے لڑتے تھے کہ دشمن کے صفیں چیر کر نکل جاتے تھے۔ ان کی بہادری پر بے شمار مرتبہ حضرت خالد بن ولیدؓ کو تعریف کرنے اور انعام و کرام دینے پر مجبور کیا۔ دشمنوں میں وہ ننگے بدن والا کے نام سے مشہور تھے۔رومیوں کے لاکھوں کی تعداد پر مشتمل لشکر سے جنگِ اجنادین جاری تھی۔ حضرت ضرارؓ حسب معمول میدان میں اترے اور صف آراء دشمن فوج پر طوفان کی طرح ٹوٹ پڑے اتنی تیزی اور بہادری سے لڑے کہ لڑتے لڑتیدشمن فوج کی صفیں چیرتے ہوئے مسلمانوں کے لشکر سے بچھڑ کر دشمن فوج کے درمیان تک پہنچ گئے۔ دشمن نے انہیں اپنے درمیاں دیکھا تو ان کو نرغے میں لے کر بڑی مشکل سے قید کر لیا۔مسلمانوں تک بھی خبر پہنچ گئی کہ حضرت ضرارؓ کو قید کر لیا گیا ہے۔حضرت خالد بن ولیدؓنے اپنی فوج کے بہادر نوجوانوں کا دستہ تیار کیا اور حضرت ضرارؓ کو آزاد کروانے کے لیے ہدایات وغیرہ دینے لگے۔ اتنے میں انہوں نے ایک نقاب پوش سوار کو دیکھا جو گرد اڑاتا دشمن کی فوج پر حملہ آور ہونے جا رہا ہے۔ اس سوار نے اتنی تند خوہی اور غضب ناکی سے حملہ کیا کہ اس کے سامنے سے دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گیا۔ حضرت خالدؓ اس کے وار دیکھ کر اور شجاعت دیکھ کر عش عش کر اٹھے اور ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ سوار کون ہے؟ لیکن سب نے لاعلمی ظاہر کی کہ وہ نہیں جانتے۔ حضرت خالدؓ نے جوانوں کو اس سوار کی مدد کرنے کو کہا اور خود بھی مدد کرنے اسکی جانب لپکے۔ گھمسان کی جنگ جاری تھی کبھی حضرت خالد بن ولیدؓاس سوار کو نرغے سے نکلنے میں مدد کرتے اور کبھی وہ سوار حضرت خالدؓ کی مدد کرتا۔ حضرت خالدؓ اس سوار کی بہادری سے متاثر ہو کر اس کے پاس گئے اور پوچھا کون ہو تم؟ اس سوار نے بجائے جواب دینے کے اپنا رخ موڑا اور دشمنوں پر جارحانہ حملے اور وار کرنے لگا موقع ملنے پر دوسری بار پھر حضرت خالدؓ نے پوچھا اے سوار تو کون ہے؟ اس سوار نے پھر جواب دینے کی بجائے رخ بدل کر دشمن پر حملہ آور ہوا تیسری بار حضرت خالدؓ نے اس سوار سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا کہ اے بہادر تو کون ہے؟ تو نقاب کے پیچھے سے نسوانی آواز آئی کہ میں ضرارؓ کی بہن خولہ بنت ازورؓ ہوں اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گی جب تک اپنے بھائی کو آزاد نہیں کروا لیتی۔ حضرت خالدؓنے کہا کہ پہلے کیوں نہیں بتایا تو کہنے لگی آپ نے منع کر دینا تھا۔ حضرت خالدؓ نے کہا آپ کو آنے کی کیا ضرورت تھی ہم تھے آزاد کروانے کے لیے تو حضرت خولہؓ نے جواب دیا کہ جب بھائیوں پر مصیبت آتی ہے تو بہنیں ہی آگے آیا کرتیں ہیں۔ پھر مسلمانوں اور حضرت خولہؓ نے مل کر حضرت ضرارؓ کو آزاد کروا کر دم لیا۔  حالانکہ خولہ بنت ازور کی اپنی شخصیت بھی کچھ کم با کمال نہ تھی لیکن ضرار بن ازورؓ کی بہن ہونے کی وجہ سے بھی مزید شہرت ملی۔ ضرار بن ازورؓ کا ذکر ملک شام کی فتوحات میں نمایاں طور پر ملتا ہے۔حضرت ضرارؓوالے واقعے کے کچھ ہی عرصہ بعد شام کے عیسائیوں نے اپنے ایک کمانڈر بولص اور اس کے بھائی بطرس کی قیادت میں مسلمانوں کے ایک چھوٹے لشکر پر حملہ کرکے کچھ مسلمان خواتین کو گرفتار کرلیا، جن میں حضرت خولہؓ بھی شامل تھیں۔گرفتار شدہ عورتیں قبائل عرب سے مقابلہ کرنے کی خوگر اورعادی تھیں۔ یہ سب عظیم اور غیرتمند خواتین آپس میں جمع ہوئیں اور حضرت خولہ بنت ازور رضی آ عنہا ؓ نے انہیں مخاطب کرکے کہا:’’حمیر کی بیٹیو! اور اے قبیلہ تبع کی یادگارو! کیا تم اس بات پر رضا مند ہو اور یہ چاہتی ہو کہ رومی کافر اور بے دین تم پر غالب آجائیں؟ تم ان کی لونڈیاں، باندیاں بن کر رہو۔ کہاں گئی تمہاری وہ شجاعت اور کیا ہوئی تمہاری وہ غیرت جس کا چرچا عرب کی لونڈیوں میں اور جس کا ذکر عربی مجلسوں میں ہوا کرتاتھا؟ افسوس میں تمہیں غیرت وحمیت سے خالی اور شجاعت وبراعت سے دور دیکھ رہی ہوں۔ میرے نزدیک اس آنے والی مصیبت سے تمہارا قتل ہوجانا بہتر اور رومیوں کی خدمت کرنے سے مرجاناافضل ہے۔‘‘یہ سن کر عفیرہ بنت عفار حمیریہؓ نے کہا:’’اے بنت ازور! تم نے ہماری شجاعت وبراعت، عقل ودانائی، بزرگی اور مرتبہ کے متعلق جو کچھ بیان کیا، وہ واقعی سچ ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ ہمیں گھوڑے کی سواری کی عادت ہے اور دشمن کا رات کے وقت بھی قافیہ تنگ کردینا آتا ہے۔ مگر یہ تو بتلائیے کہ جو شخص نہ گھوڑا رکھتا ہو، نہ نیزہ، اس کے پاس کوئی ہتھیار ہو نہ تلوار ،ایساشخص کیا کرسکتاہے؟
(Part 1) *اسلام کے درخشاں ستارے* ضرار بن ازورؓ ایک ایسے انسان تھے کہ اس دور میں دشمن ان کے نام سے کانپ اٹھتے تھے اور ان کی راہ میں آنے سے کتراتے تھے۔ جنگ ہوتی تھی تو سارے دشمن اور فوجیں زرہ اور جنگی لباس پہن کر جنگ لڑتے تھے۔ لیکن آفرین حضرت ضرار زرہ تو درکنار اپنا کرتا بھی اتار دیتے تھے۔لمبے بال لہراتے چمکتے بدن کے ساتھ جب میدان میں اترتے تھے تو ان کے پیچھے دھول نظر آتی تھی اور ان کے آگے لاشیں۔ اتنی پھرتی، تیزی اور بہادری سے لڑتے تھے کہ دشمن کے صفیں چیر کر نکل جاتے تھے۔ ان کی بہادری پر بے شمار مرتبہ حضرت خالد بن ولیدؓ کو تعریف کرنے اور انعام و کرام دینے پر مجبور کیا۔ دشمنوں میں وہ ننگے بدن والا کے نام سے مشہور تھے۔رومیوں کے لاکھوں کی تعداد پر مشتمل لشکر سے جنگِ اجنادین جاری تھی۔ حضرت ضرارؓ حسب معمول میدان میں اترے اور صف آراء دشمن فوج پر طوفان کی طرح ٹوٹ پڑے اتنی تیزی اور بہادری سے لڑے کہ لڑتے لڑتیدشمن فوج کی صفیں چیرتے ہوئے مسلمانوں کے لشکر سے بچھڑ کر دشمن فوج کے درمیان تک پہنچ گئے۔ دشمن نے انہیں اپنے درمیاں دیکھا تو ان کو نرغے میں لے کر بڑی مشکل سے قید کر لیا۔مسلمانوں تک بھی خبر پہنچ گئی کہ حضرت ضرارؓ کو قید کر لیا گیا ہے۔حضرت خالد بن ولیدؓنے اپنی فوج کے بہادر نوجوانوں کا دستہ تیار کیا اور حضرت ضرارؓ کو آزاد کروانے کے لیے ہدایات وغیرہ دینے لگے۔ اتنے میں انہوں نے ایک نقاب پوش سوار کو دیکھا جو گرد اڑاتا دشمن کی فوج پر حملہ آور ہونے جا رہا ہے۔ اس سوار نے اتنی تند خوہی اور غضب ناکی سے حملہ کیا کہ اس کے سامنے سے دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گیا۔ حضرت خالدؓ اس کے وار دیکھ کر اور شجاعت دیکھ کر عش عش کر اٹھے اور ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ سوار کون ہے؟ لیکن سب نے لاعلمی ظاہر کی کہ وہ نہیں جانتے۔ حضرت خالدؓ نے جوانوں کو اس سوار کی مدد کرنے کو کہا اور خود بھی مدد کرنے اسکی جانب لپکے۔ گھمسان کی جنگ جاری تھی کبھی حضرت خالد بن ولیدؓاس سوار کو نرغے سے نکلنے میں مدد کرتے اور کبھی وہ سوار حضرت خالدؓ کی مدد کرتا۔ حضرت خالدؓ اس سوار کی بہادری سے متاثر ہو کر اس کے پاس گئے اور پوچھا کون ہو تم؟ اس سوار نے بجائے جواب دینے کے اپنا رخ موڑا اور دشمنوں پر جارحانہ حملے اور وار کرنے لگا موقع ملنے پر دوسری بار پھر حضرت خالدؓ نے پوچھا اے سوار تو کون ہے؟ اس سوار نے پھر جواب دینے کی بجائے رخ بدل کر دشمن پر حملہ آور ہوا تیسری بار حضرت خالدؓ نے اس سوار سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا کہ اے بہادر تو کون ہے؟ تو نقاب کے پیچھے سے نسوانی آواز آئی کہ میں ضرارؓ کی بہن خولہ بنت ازورؓ ہوں اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گی جب تک اپنے بھائی کو آزاد نہیں کروا لیتی۔ حضرت خالدؓنے کہا کہ پہلے کیوں نہیں بتایا تو کہنے لگی آپ نے منع کر دینا تھا۔ حضرت خالدؓ نے کہا آپ کو آنے کی کیا ضرورت تھی ہم تھے آزاد کروانے کے لیے تو حضرت خولہؓ نے جواب دیا کہ جب بھائیوں پر مصیبت آتی ہے تو بہنیں ہی آگے آیا کرتیں ہیں۔ پھر مسلمانوں اور حضرت خولہؓ نے مل کر حضرت ضرارؓ کو آزاد کروا کر دم لیا۔ حالانکہ خولہ بنت ازور کی اپنی شخصیت بھی کچھ کم با کمال نہ تھی لیکن ضرار بن ازورؓ کی بہن ہونے کی وجہ سے بھی مزید شہرت ملی۔ ضرار بن ازورؓ کا ذکر ملک شام کی فتوحات میں نمایاں طور پر ملتا ہے۔حضرت ضرارؓوالے واقعے کے کچھ ہی عرصہ بعد شام کے عیسائیوں نے اپنے ایک کمانڈر بولص اور اس کے بھائی بطرس کی قیادت میں مسلمانوں کے ایک چھوٹے لشکر پر حملہ کرکے کچھ مسلمان خواتین کو گرفتار کرلیا، جن میں حضرت خولہؓ بھی شامل تھیں۔گرفتار شدہ عورتیں قبائل عرب سے مقابلہ کرنے کی خوگر اورعادی تھیں۔ یہ سب عظیم اور غیرتمند خواتین آپس میں جمع ہوئیں اور حضرت خولہ بنت ازور رضی آ عنہا ؓ نے انہیں مخاطب کرکے کہا:’’حمیر کی بیٹیو! اور اے قبیلہ تبع کی یادگارو! کیا تم اس بات پر رضا مند ہو اور یہ چاہتی ہو کہ رومی کافر اور بے دین تم پر غالب آجائیں؟ تم ان کی لونڈیاں، باندیاں بن کر رہو۔ کہاں گئی تمہاری وہ شجاعت اور کیا ہوئی تمہاری وہ غیرت جس کا چرچا عرب کی لونڈیوں میں اور جس کا ذکر عربی مجلسوں میں ہوا کرتاتھا؟ افسوس میں تمہیں غیرت وحمیت سے خالی اور شجاعت وبراعت سے دور دیکھ رہی ہوں۔ میرے نزدیک اس آنے والی مصیبت سے تمہارا قتل ہوجانا بہتر اور رومیوں کی خدمت کرنے سے مرجاناافضل ہے۔‘‘یہ سن کر عفیرہ بنت عفار حمیریہؓ نے کہا:’’اے بنت ازور! تم نے ہماری شجاعت وبراعت، عقل ودانائی، بزرگی اور مرتبہ کے متعلق جو کچھ بیان کیا، وہ واقعی سچ ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ ہمیں گھوڑے کی سواری کی عادت ہے اور دشمن کا رات کے وقت بھی قافیہ تنگ کردینا آتا ہے۔ مگر یہ تو بتلائیے کہ جو شخص نہ گھوڑا رکھتا ہو، نہ نیزہ، اس کے پاس کوئی ہتھیار ہو نہ تلوار ،ایساشخص کیا کرسکتاہے؟

About