@ig.dhan_venture: 🍃

Dhan
Dhan
Open In TikTok:
Region: PH
Friday 02 August 2024 07:55:26 GMT
391
22
0
0

Music

Download

Comments

There are no more comments for this video.
To see more videos from user @ig.dhan_venture, please go to the Tikwm homepage.

Other Videos

نوٹ ۔۔ یہ پارٹ ٹو ہے پارٹ ون بھی پروفائل میں اپلوڈ ہے تفصیل سے پڑھئے شکریہ۔ اسطرح کوئی بھی آواز مزید پھیلتی اور منتقل ہوتی ہے، اور اسی طرح گیس کی تہوں کے زریعے بار بار یہ ایکشن دوہرانے کا سبب بن کر سفر کرتی رہتی ہے۔یہی عمل کسی بھی میڈیم کے مالیکیولز کے ساتھ ہوتا ہے چاہے وہ میڈیم کوئی ٹھوس ہو، مائع ہو یا پھر کوئی بھی گیس ہو۔ یہاں یہ بات نوٹ کریں کہ جب کسی گیس کے میڈیم سے آواز گزر رہی ہوتی ہے ، تو اس گیس کے انفرادی مالیکیول ایک بے ترتیب حرکت یعنی random movementکے ساتھ حرکت کر رہے ہوتے ہیں۔لہذا آواز کی لہر کا کسی میڈیم میں پھیلاؤ اور منتقل ہونا، واسطے کے مالیکیولز (رگڑ) کے درمیان تصادم کا سبب بنتا ہے۔ اس سے وہ اپنی حرکی اور مخفی یا پوٹیشنل توانائی دونوں حاصل کریں گے ، چاہے وہ اگر یہ ٹھوس یا مائع واسطے کے ذریعے بھی سفر کرے۔ مالیکیولز کے ذریعہ حرکی توانائی کا حصول اس میڈیم کا ٹوٹل درجہ حرارت بڑھا دے گا۔ اس لیے آواز کی لہر کی مکینیکل توانائی، مسلسل تھرمل توانائی میں تبدیل ہو رہی ہے، اور یوں اسکی مقدار میں کمی ہورہی ہوتی ہے۔پھر جب یہ آواز ایک ایسے مقام پر پہنچ جائے، جہاں تمام صوتی لہر کی تمام توانائی حرارت میں تبدیل ہو جائے گی، تو لہٰذا آواز کی لہر منتشر ہو کر اگے سفر کرنا بند کر دے گی کیونکہ منتقلی کے لیے پھر اسکو زیادہ توانائی نہیں ملے گی۔ کیا روشنی بھی ہمیشہ کے لیے سفر کرتی ہے یا آخر کار وہ بھی ختم ہو جاتی ہے؟ نہیں، روشنی ہمیشہ کے لیے کسی بھی جگہ سفر کرسکتی ہے، جب تک کہ وہ کسی دوسری سطح یا چیز کے اندر جذب نہ ہوجائے ، جیسے کسی سیارے، بلیک ہول وغیرہ روشنی کی لہروں کو حرکت کرنے کے لیے میڈیم کی ضرورت نہیں ہوتی، کیونکہ وہ برقناطیسی یا الیکٹرومیگنیٹک لہر ہے۔ وہ خلا یا ویکیوم سے گزر سکتی ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ایک روشنی کی لہر ویکیوم میں کتنی دیر تک سفر کرتی ہے، یہ کبھی نہیں منتشر ہوتی ہے، کیونکہ یہ کسی اور چیز کے ساتھ تعامل نہیں کر رہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ان ان کہکشاؤں کو بھی دیکھ سکتے ہیں جو ہم سے ایک ارب نوری سال دور ہیں۔ تاہم، بہت دور سے آنے کی وجہ سے روشنی کی لہر پھیل جائے گی اور کائنات کے پھیلاؤ کی وجہ سے خلا میں سفر کرتے ہوئے توانائی کھو دے گی، جس کے نتیجے میں اسکی تعدد یا فریکوئنسی میں کمی واقع ہوگی۔ اسے ریڈ شفٹ کہا جاتا ہے، کیونکہ روشنی کو سپیکٹرم کے سرخ حصے کی طرف 'شفٹ' ہوتے ہوئےدیکھا جاتا ہے۔اس بات کا مطلب یہ ہوا کہ روشنی کبھی بھی ضائع نہیں ہوسکتی، چاہے وہ جتنا بھی پرانے دور سے آرہی ہو یا جتنے بھی زیادہ فاصلے سے آرہی ہو۔ تقریباً 13.8 بلین سال تک خلا میں سفر کرنے کے بعد، مائیکرو ویو بیک گراؤنڈ لہریں، جو کبھی بگ بینگ کے فوراً بعد مرئی روشنی کے طور پر موجود تھا، مائیکرو ویوز میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ اور اب یہی لہریں ہمیں بگ بینگ ہونے کے واقعے کا ثبوت مہیا کرتی ہیں۔ ۔ ۔ #ranahunter1751 @RANA.HUNTER1751
نوٹ ۔۔ یہ پارٹ ٹو ہے پارٹ ون بھی پروفائل میں اپلوڈ ہے تفصیل سے پڑھئے شکریہ۔ اسطرح کوئی بھی آواز مزید پھیلتی اور منتقل ہوتی ہے، اور اسی طرح گیس کی تہوں کے زریعے بار بار یہ ایکشن دوہرانے کا سبب بن کر سفر کرتی رہتی ہے۔یہی عمل کسی بھی میڈیم کے مالیکیولز کے ساتھ ہوتا ہے چاہے وہ میڈیم کوئی ٹھوس ہو، مائع ہو یا پھر کوئی بھی گیس ہو۔ یہاں یہ بات نوٹ کریں کہ جب کسی گیس کے میڈیم سے آواز گزر رہی ہوتی ہے ، تو اس گیس کے انفرادی مالیکیول ایک بے ترتیب حرکت یعنی random movementکے ساتھ حرکت کر رہے ہوتے ہیں۔لہذا آواز کی لہر کا کسی میڈیم میں پھیلاؤ اور منتقل ہونا، واسطے کے مالیکیولز (رگڑ) کے درمیان تصادم کا سبب بنتا ہے۔ اس سے وہ اپنی حرکی اور مخفی یا پوٹیشنل توانائی دونوں حاصل کریں گے ، چاہے وہ اگر یہ ٹھوس یا مائع واسطے کے ذریعے بھی سفر کرے۔ مالیکیولز کے ذریعہ حرکی توانائی کا حصول اس میڈیم کا ٹوٹل درجہ حرارت بڑھا دے گا۔ اس لیے آواز کی لہر کی مکینیکل توانائی، مسلسل تھرمل توانائی میں تبدیل ہو رہی ہے، اور یوں اسکی مقدار میں کمی ہورہی ہوتی ہے۔پھر جب یہ آواز ایک ایسے مقام پر پہنچ جائے، جہاں تمام صوتی لہر کی تمام توانائی حرارت میں تبدیل ہو جائے گی، تو لہٰذا آواز کی لہر منتشر ہو کر اگے سفر کرنا بند کر دے گی کیونکہ منتقلی کے لیے پھر اسکو زیادہ توانائی نہیں ملے گی۔ کیا روشنی بھی ہمیشہ کے لیے سفر کرتی ہے یا آخر کار وہ بھی ختم ہو جاتی ہے؟ نہیں، روشنی ہمیشہ کے لیے کسی بھی جگہ سفر کرسکتی ہے، جب تک کہ وہ کسی دوسری سطح یا چیز کے اندر جذب نہ ہوجائے ، جیسے کسی سیارے، بلیک ہول وغیرہ روشنی کی لہروں کو حرکت کرنے کے لیے میڈیم کی ضرورت نہیں ہوتی، کیونکہ وہ برقناطیسی یا الیکٹرومیگنیٹک لہر ہے۔ وہ خلا یا ویکیوم سے گزر سکتی ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ایک روشنی کی لہر ویکیوم میں کتنی دیر تک سفر کرتی ہے، یہ کبھی نہیں منتشر ہوتی ہے، کیونکہ یہ کسی اور چیز کے ساتھ تعامل نہیں کر رہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ان ان کہکشاؤں کو بھی دیکھ سکتے ہیں جو ہم سے ایک ارب نوری سال دور ہیں۔ تاہم، بہت دور سے آنے کی وجہ سے روشنی کی لہر پھیل جائے گی اور کائنات کے پھیلاؤ کی وجہ سے خلا میں سفر کرتے ہوئے توانائی کھو دے گی، جس کے نتیجے میں اسکی تعدد یا فریکوئنسی میں کمی واقع ہوگی۔ اسے ریڈ شفٹ کہا جاتا ہے، کیونکہ روشنی کو سپیکٹرم کے سرخ حصے کی طرف 'شفٹ' ہوتے ہوئےدیکھا جاتا ہے۔اس بات کا مطلب یہ ہوا کہ روشنی کبھی بھی ضائع نہیں ہوسکتی، چاہے وہ جتنا بھی پرانے دور سے آرہی ہو یا جتنے بھی زیادہ فاصلے سے آرہی ہو۔ تقریباً 13.8 بلین سال تک خلا میں سفر کرنے کے بعد، مائیکرو ویو بیک گراؤنڈ لہریں، جو کبھی بگ بینگ کے فوراً بعد مرئی روشنی کے طور پر موجود تھا، مائیکرو ویوز میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ اور اب یہی لہریں ہمیں بگ بینگ ہونے کے واقعے کا ثبوت مہیا کرتی ہیں۔ ۔ ۔ #ranahunter1751 @RANA.HUNTER1751

About