@jeee574: Rekomendasi Kemeja polos wanita bahan rayon #rekomendasi #kemeja #fyp

je'sstore
je'sstore
Open In TikTok:
Region: ID
Tuesday 20 August 2024 16:52:36 GMT
126
2
0
1

Music

Download

Comments

There are no more comments for this video.
To see more videos from user @jeee574, please go to the Tikwm homepage.

Other Videos

تاریخ 10 جولائی 2024                                    )بروز بدھ( پریس ریلیز کراچی	 ( پ ر )	   ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن پاکستان موجودہ ظالمانہ ٹیکس کے نفاذ کو مسترد کرتی ہے۔ جانوروں کی فیڈ اور خام مال ( پام کرنل کیک، کینولا میل، سرسوں میل، سن فلاور میل ) اور دیگر اجزاء پر لگائے گئے ظالمانہ ٹیکس سے دودھ، گوشت، مرغی اور انڈے کی پیداواری لاگت میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور یہ بوجھ صارف پر پڑے گا پاکستان کا شہری مزید مہنگائی کا متحمل نہیں ہوسکتا یقینی طور پر ہم دودھ ، مرغی اور انڈہ مہنگا پیدا کر کے سستے داموں فروخت نہیں کر سکتے حالیہ بجٹ میں ڈیری سیکٹر میں جانوروں کی خوراک پر ٹیکس سے نیا مہنگائی کا طوفان آگیا ہے اجناس فیڈ پر 10 فیصد ٹیکس کی وجہ سے اجناس کی قیمتوں اور مویشیوں سمیت دیگر اخراجات میں 13 فیصد تک کا اضافہ ہو گیا ہے جس سے فیڈ کی فی بوری کی قیمت بڑھ کر تین ہزار چھ سو روپیہ اور دیگر اجناس سمیت بھینس و گائے کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہو گیا ہے اور یہ ٹیکس پاکستان میں ہونے والی سرمایہ کاری کی راہ میں بھی رکاوٹ ہے ایسے ٹیکسز کی بھرمار نے سرمایہ کاروں کے لئے پاکستان کو ایک پہاڑ بنا دیا ہے جہاں سرمایہ آنے کی بجائے دیگر ممالک جارہا ہے پاکستان پہلے ہی دودھ کی کمی سے دوچار ہے اور دودھ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے پاکستان بھر میں کارپوریٹ ڈیری فامرز بڑی سرمایہ کاری کر کے بیرون ملک سے بڑے پیمانے پر دودھ دینے والی گائے امپورٹ کی ہیں وہ اس ٹیکس سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں اور پاکستان میں بچے، بزرگ اور خواتین غذائی کمی کا شکار ہیں  حالیہ بجٹ کی وجہ سے دودھ ، گوشت، مرغی اور انڈے کی پیداوار میں مزید کمی ہوگی اور ڈیری و پولٹری فارمرز لائیو اسٹاک سیکٹر کو ہمیشہ کیلئے خیر باد کہہ جائیں گے۔ کیونکہ پہلے ہی فارمرز روزانہ کی بنیاد پر دیوالیہ ہو رہے ہیں۔ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ دودھ ، گوشت، مرغی، انڈا اور دیگر اشیائے ضروریہ کی پیداواری لاگت کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اور سستی پروٹین سورس کو متاثر نہ کرے اس سے بچے مزید غذائی کمی کا شکار ہونگے۔ وطن عزیز میں صرف ڈیری سیکٹر سے تقریباً 80 لاکھ گھرانے منسلک ہیں۔ جو کہ ظالمانہ ٹیکس کے نفاذ کی وجہ سے موجودہ مہنگائی کی نظر ہو جائیں گے۔ جس سے وطنِ عزیز میں بے روزگاری کا مزید اضافہ ہوگااور نتیجے میں مہنگی اشیائے ضروریہ پیدا ہونگی جن کا بوجھ کسان نہیں بلکہ عام آدمی مہنگی اشیائے ضروریہ خریداری کرکے اٹھائے گا اور وسائل کی کمی کی وجہ سے جعلی دودھ کی خریداری کرے گا نتیجے میں غذائی کمی اور بیماری آئے گی جس سے عام لوگ شدید متاثر ہونگے ۔ہم حکومت وقت اور منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ اور دیگر  متعلقہ اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ حالیہ بجٹ میں جانوروں کی خوراک پر لاگو کیا جانے والا ٹیکس واپس لیا جائے بصورت دیگر دودھ کی قیمت 300 روپیہ اور گوشت بیف 2000 اور مٹن کی قیمت 3500 روپیہ فی کلو ہونے کا خدشہ ہے یقینی طور پر یہ وطن عزیز کی فوڈ سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ ڈیری سیکٹر و لائیو اسٹاک سیکٹر کی بقاء کا مسئلہ ہے یہ ٹیکس ڈیری و پولٹری دونوں کو براہ راست متاثر کررہا ہے اور حکومت وقت صارف سے سستا پروٹین سورس چھین رہی ہے۔ ملک بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں سے کسان شدید متاثر ہیں ہیٹ اسٹروک سے صرف کراچی میں  15 ہزار ، حیدرآباد میں 6 ہزار میر پور خاص میں 3 ہزار اور ملک میں لاکھوں مویشیوں کی اموات ہوئی ہیں ان گائیوں اور بھینسوں  مرنے اور ایمرجنسی سلاٹرنگ سے دودھ کی پیداوار میں ملک بھر میں  20 سے 25 فیصد کمی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے فارمر دیوالیہ پر پہنچ گئے ہیں  مویشیوں کے مرنے اور ڈیری پر ٹیکس کی وجہ سے موجودہ قیمتوں پر  دودھ فروخت کرنا مشکل ہو گیا ہے ۔ کراچی ،  حیدآباد ، لاہور ، فیصل آباد ، اسلام آباد ، کوئٹہ ، پشاور سمیت ملک بھر میں دیگر شہروں میں اس بحران کی وجہ سے دودھ کی پیداوار میں شدید کمی کی وجہ سے ملک بھر میں طلب پوری نہیں ہو رہی ہے اور جعلی دودھ فروغ پا رہا ہے ۔دودھ کی دوکانیں صرف چار گھنٹے کھلنے کے بعد بند ہو جاتی ہیں جناب یہ فوڈ سیکورٹی کا معاملہ ہے ، دنیا کا چوتھا بڑا دودھ کا پیداواری ملک جس میں دودھ میسر نہیں ہے ہم امید کرتے ہیں اس سیکٹرکو بچانے کے لیے فوری طور پر ملک بھر میں دودھ کی قیمتوں کا اختیار مارکیٹ کو دے دیا جائےاور اس کا تعین ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے مطابق کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں یا پھر ملک بھر میں دودھ کی قیمت میں مزید 80 روپیہ فی لیٹر کا اضافہ کیا جائے  تاکہ ملک بھر کے ڈیری فارمرز سکھ کاسانس لے سکیں ۔ خیر اندیش؛ چودھری شاکر عمر گجر صدر ڈیری & کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن پاکستان #dcfapakistan #shakirumargujjar #milkpriceshike #shakirumar
تاریخ 10 جولائی 2024 )بروز بدھ( پریس ریلیز کراچی ( پ ر ) ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن پاکستان موجودہ ظالمانہ ٹیکس کے نفاذ کو مسترد کرتی ہے۔ جانوروں کی فیڈ اور خام مال ( پام کرنل کیک، کینولا میل، سرسوں میل، سن فلاور میل ) اور دیگر اجزاء پر لگائے گئے ظالمانہ ٹیکس سے دودھ، گوشت، مرغی اور انڈے کی پیداواری لاگت میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور یہ بوجھ صارف پر پڑے گا پاکستان کا شہری مزید مہنگائی کا متحمل نہیں ہوسکتا یقینی طور پر ہم دودھ ، مرغی اور انڈہ مہنگا پیدا کر کے سستے داموں فروخت نہیں کر سکتے حالیہ بجٹ میں ڈیری سیکٹر میں جانوروں کی خوراک پر ٹیکس سے نیا مہنگائی کا طوفان آگیا ہے اجناس فیڈ پر 10 فیصد ٹیکس کی وجہ سے اجناس کی قیمتوں اور مویشیوں سمیت دیگر اخراجات میں 13 فیصد تک کا اضافہ ہو گیا ہے جس سے فیڈ کی فی بوری کی قیمت بڑھ کر تین ہزار چھ سو روپیہ اور دیگر اجناس سمیت بھینس و گائے کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہو گیا ہے اور یہ ٹیکس پاکستان میں ہونے والی سرمایہ کاری کی راہ میں بھی رکاوٹ ہے ایسے ٹیکسز کی بھرمار نے سرمایہ کاروں کے لئے پاکستان کو ایک پہاڑ بنا دیا ہے جہاں سرمایہ آنے کی بجائے دیگر ممالک جارہا ہے پاکستان پہلے ہی دودھ کی کمی سے دوچار ہے اور دودھ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے پاکستان بھر میں کارپوریٹ ڈیری فامرز بڑی سرمایہ کاری کر کے بیرون ملک سے بڑے پیمانے پر دودھ دینے والی گائے امپورٹ کی ہیں وہ اس ٹیکس سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں اور پاکستان میں بچے، بزرگ اور خواتین غذائی کمی کا شکار ہیں حالیہ بجٹ کی وجہ سے دودھ ، گوشت، مرغی اور انڈے کی پیداوار میں مزید کمی ہوگی اور ڈیری و پولٹری فارمرز لائیو اسٹاک سیکٹر کو ہمیشہ کیلئے خیر باد کہہ جائیں گے۔ کیونکہ پہلے ہی فارمرز روزانہ کی بنیاد پر دیوالیہ ہو رہے ہیں۔ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ دودھ ، گوشت، مرغی، انڈا اور دیگر اشیائے ضروریہ کی پیداواری لاگت کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اور سستی پروٹین سورس کو متاثر نہ کرے اس سے بچے مزید غذائی کمی کا شکار ہونگے۔ وطن عزیز میں صرف ڈیری سیکٹر سے تقریباً 80 لاکھ گھرانے منسلک ہیں۔ جو کہ ظالمانہ ٹیکس کے نفاذ کی وجہ سے موجودہ مہنگائی کی نظر ہو جائیں گے۔ جس سے وطنِ عزیز میں بے روزگاری کا مزید اضافہ ہوگااور نتیجے میں مہنگی اشیائے ضروریہ پیدا ہونگی جن کا بوجھ کسان نہیں بلکہ عام آدمی مہنگی اشیائے ضروریہ خریداری کرکے اٹھائے گا اور وسائل کی کمی کی وجہ سے جعلی دودھ کی خریداری کرے گا نتیجے میں غذائی کمی اور بیماری آئے گی جس سے عام لوگ شدید متاثر ہونگے ۔ہم حکومت وقت اور منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ اور دیگر متعلقہ اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ حالیہ بجٹ میں جانوروں کی خوراک پر لاگو کیا جانے والا ٹیکس واپس لیا جائے بصورت دیگر دودھ کی قیمت 300 روپیہ اور گوشت بیف 2000 اور مٹن کی قیمت 3500 روپیہ فی کلو ہونے کا خدشہ ہے یقینی طور پر یہ وطن عزیز کی فوڈ سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ ڈیری سیکٹر و لائیو اسٹاک سیکٹر کی بقاء کا مسئلہ ہے یہ ٹیکس ڈیری و پولٹری دونوں کو براہ راست متاثر کررہا ہے اور حکومت وقت صارف سے سستا پروٹین سورس چھین رہی ہے۔ ملک بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں سے کسان شدید متاثر ہیں ہیٹ اسٹروک سے صرف کراچی میں 15 ہزار ، حیدرآباد میں 6 ہزار میر پور خاص میں 3 ہزار اور ملک میں لاکھوں مویشیوں کی اموات ہوئی ہیں ان گائیوں اور بھینسوں مرنے اور ایمرجنسی سلاٹرنگ سے دودھ کی پیداوار میں ملک بھر میں 20 سے 25 فیصد کمی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے فارمر دیوالیہ پر پہنچ گئے ہیں مویشیوں کے مرنے اور ڈیری پر ٹیکس کی وجہ سے موجودہ قیمتوں پر دودھ فروخت کرنا مشکل ہو گیا ہے ۔ کراچی ، حیدآباد ، لاہور ، فیصل آباد ، اسلام آباد ، کوئٹہ ، پشاور سمیت ملک بھر میں دیگر شہروں میں اس بحران کی وجہ سے دودھ کی پیداوار میں شدید کمی کی وجہ سے ملک بھر میں طلب پوری نہیں ہو رہی ہے اور جعلی دودھ فروغ پا رہا ہے ۔دودھ کی دوکانیں صرف چار گھنٹے کھلنے کے بعد بند ہو جاتی ہیں جناب یہ فوڈ سیکورٹی کا معاملہ ہے ، دنیا کا چوتھا بڑا دودھ کا پیداواری ملک جس میں دودھ میسر نہیں ہے ہم امید کرتے ہیں اس سیکٹرکو بچانے کے لیے فوری طور پر ملک بھر میں دودھ کی قیمتوں کا اختیار مارکیٹ کو دے دیا جائےاور اس کا تعین ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے مطابق کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں یا پھر ملک بھر میں دودھ کی قیمت میں مزید 80 روپیہ فی لیٹر کا اضافہ کیا جائے تاکہ ملک بھر کے ڈیری فارمرز سکھ کاسانس لے سکیں ۔ خیر اندیش؛ چودھری شاکر عمر گجر صدر ڈیری & کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن پاکستان #dcfapakistan #shakirumargujjar #milkpriceshike #shakirumar

About