@abdul_qadeer_shah_marwat: دو قومی نظریے کی حقیقت کیا تھا تاریخ کے آئینے میں ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ ہونا ضروری ہے ۔ سن 1971 میں جب ہندوستان کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے کہا کہ ہم نے پاکستان کے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیئے یہ دعویٰ ایک خاص وقت اور تناظر میں کیا گیا تھا اس وقت پاکستان مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم ہوا تھا اور مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں علیحدگی کی تحریک زوروں پر تھی بھارت کی فوجی مداخلت اور بنگلہ دیش کے قیام کو اندرا گاندھی نے دو قومی نظریے کی شکست کے طور پر پیش کیا ۔ لیکن اگر آج 1971 کے واقعے کے کئی دہائیوں بعد کا جائزہ لیا جائے تو حقیقت اس کے برعکس نظر آتی ہے پاکستان اور بنگلہ دیش کی اعلیٰ قیادت کا قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر کے سامنے بیٹھنا اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ دو قومی نظریہ ایک زندہ حقیقت ہے وقت نے دو قومی نظریے کچھ وقت کیلئے خاموش تو کر لیے مگر وقت کی گزرگاہ دو قومی نظریے مٹا نہیں سکے ۔ دو قومی نظریے کی بنیاد کیا تھی دو قومی نظریہ برصغیر کی مسلم شناخت کا وہ بنیادی اصول تھا جس پر تحریک پاکستان کی بنیاد رکھی گئی قائداعظم محمد علی جناح نے اس نظریے کو مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کے قیام کے جواز کے طور پر پیش کیا ان کے مطابق مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں جن کی تہذیب، ثقافت، مذہب اور طرزِ زندگی بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہیں یہ نظریہ نہ صرف مسلمانوں کی سیاسی اور مذہبی آزادی کا ضامن تھا جس سے قیام پاکستان مادر ملت وجود میں آیا ۔ اندرا گاندھی نے 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کو بھارت کی ایک بڑی کامیابی اور پاکستان کی ناکامی کے طور پر پیش کیا گیا اندرا گاندھی نے اس وقت بنگلہ دیش کی علیحدگی کو دو قومی نظریے کی موت قرار دیا ان کے مطابق، بنگالی مسلمانوں کی پاکستان سے علیحدگی اس بات کا ثبوت تھی کہ مذہب ایک قوم کو متحد رکھنے کے لیے کافی نہیں ہوتا ۔ لیکن اس بیانیے میں ایک بنیادی خامی تھی بنگلہ دیش کی علیحدگی مذہب سے زیادہ زبان، ثقافت، اور سیاسی محرومیوں کا نتیجہ تھی بنگلہ دیش نے ایک علیحدہ ریاست کے طور پر خود کو ایک مسلم اکثریتی ملک کے طور پر قائم رکھا جو دو قومی نظریے کی اصل روح کو ثابت کرتا ہے ۔ آج کے تناظر میں دو قومی نظریہ جب پاکستان اور بنگلہ دیش کی قیادت جناح کی تصویر کے سامنے بیٹھ کر ملاقات کر رہے تھے تو وقت اس بات کا مظہر تھا کہ مسلمانوں کا مشترکہ قومی تشخص اب بھی زندہ ہے بنگلہ دیش نے علیحدگی کے بعد اپنی شناخت ایک مسلم ریاست کے طور پر برقرار رکھی ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مذہب کے نام پر الگ شناخت کی ضرورت کا تصور غلط نہیں تھا ۔ اندرا گاندھی کے فلسفے کی ناکامی اس بات کی ثبوت ہے کہ جو دعویٰ اندرا گاندھی کیا تھا کہ دو قومی نظریہ ختم ہو گیا اندرا گاندھی کا فلسفہ آج کے دور میں اپنی حقیقت کھو چکی ہے بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک نے دو قومی نظریے کی حقیقت کو مزید واضح کیا ہے مسلمانوں کی اپنی شناخت اور حقوق کی جدوجہد آج بھی جاری ہے چاہے وہ بھارت میں ہو یا کسی اور جگہ پر ہو بھارت میں مسلمانوں پر ائے روز مظالم کیوجہ سے برصغیر کے مسلمانوں نے جناح کی دو قومی نظریے کو درست تسلیم کر لیا ۔ اندرا گاندھی کے فلسفے کی ناکامی اس بات کا ثبوت ہے کہ دو قومی نظریہ نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک ابدی حقیقت ہے پاکستان اور بنگلہ دیش کی قیادت کا جناح کی تصویر کے سامنے بیٹھنا اس بات کی علامت ہے کہ قائداعظم کا نظریہ آج بھی زندہ ہے اور اندرا گاندھی کا دعویٰ تاریخ کے ملبے تلے دب چکا ہے ۔ یہ ثابت ہوتا ہے کہ دو قومی نظریہ کسی خاص جغرافیے یا وقت تک محدود نہیں بلکہ ایک نظریاتی حقیقت ہے جو ہمیشہ موجود رہے گی وقت نے بھارت کے دوغلی پالیسی ناکام بنا دی بنگلہ دیش کے عوام نے بنگلہ دیش میں بھارت کا سب سے مشہور گاندھی سنٹر کو آگ لگا کر ثابت کیا کہ شیخ مجیب الرحمٰن بھارت کا کٹ پتلی تھا شیخ مجیب الرحمٰن نے بھارت کے ساتھ ملکر بھارت کے شہر تلہ میں پاکستان ٹوٹنے کے لیے جو پروگرام بنایا گیا تھا آج شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی شیخ حسینہ واجد اس ہی بھارتی شہر تلہ میں جلا وطنی کاٹ رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ #abdulqadeershahmarwat