@jordankatecross: This sound 😭 it’s all I could think about. And he never got hear her say I love you 😭😭😭 #dramionefanfiction #fanfiction #theodorenott #pansyparkinson

JordanKate📚
JordanKate📚
Open In TikTok:
Region: AU
Wednesday 27 August 2025 09:48:59 GMT
441
23
0
0

Music

Download

Comments

There are no more comments for this video.
To see more videos from user @jordankatecross, please go to the Tikwm homepage.

Other Videos

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی آخری خواہش اور تدفین کا مکمل واقعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، اسلام کے دوسرے خلیفہ راشد، اپنی بے مثال عدل، تدبر اور بہادری کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کی شہادت اور تدفین کا واقعہ اسلامی تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے، جو ان کی عظمت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی گہری عقیدت کو نمایاں کرتا ہے۔ شہادت کا المناک واقعہ یہ واقعہ 26 ذی الحجہ 23 ہجری کا ہے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ فجر کی نماز کی امامت فرما رہے تھے۔ ایک مجوسی غلام، جس کا نام فیروز ابولؤلؤ تھا، نے آپ پر خنجر سے حملہ کر دیا۔ ابولؤلؤ اس سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے شکایت کر چکا تھا کہ اس کے آقا (مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ) اس سے بہت زیادہ ٹیکس لیتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تحقیق کے بعد اس کی شکایت کو غیر معقول قرار دیا تھا، جس پر وہ رنجیدہ تھا۔ ابولؤلؤ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر چھ وار کیے، جن میں سے تین مہلک ثابت ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شدید زخمی ہو گئے، لیکن اس حالت میں بھی آپ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو نماز مکمل کرنے کا حکم دیا اور خود لوگوں کو بیدار کرنے لگے۔ حملہ آور کو پکڑنے کی کوشش کی گئی، لیکن اس نے خودکشی کر لی۔ آخری لمحات اور وصیت شدید زخمی ہونے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے گھر لے جایا گیا۔ اس حالت میں بھی آپ نے صحابہ کرام سے پوچھا کہ
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی آخری خواہش اور تدفین کا مکمل واقعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، اسلام کے دوسرے خلیفہ راشد، اپنی بے مثال عدل، تدبر اور بہادری کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کی شہادت اور تدفین کا واقعہ اسلامی تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے، جو ان کی عظمت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی گہری عقیدت کو نمایاں کرتا ہے۔ شہادت کا المناک واقعہ یہ واقعہ 26 ذی الحجہ 23 ہجری کا ہے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ فجر کی نماز کی امامت فرما رہے تھے۔ ایک مجوسی غلام، جس کا نام فیروز ابولؤلؤ تھا، نے آپ پر خنجر سے حملہ کر دیا۔ ابولؤلؤ اس سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے شکایت کر چکا تھا کہ اس کے آقا (مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ) اس سے بہت زیادہ ٹیکس لیتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تحقیق کے بعد اس کی شکایت کو غیر معقول قرار دیا تھا، جس پر وہ رنجیدہ تھا۔ ابولؤلؤ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر چھ وار کیے، جن میں سے تین مہلک ثابت ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شدید زخمی ہو گئے، لیکن اس حالت میں بھی آپ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو نماز مکمل کرنے کا حکم دیا اور خود لوگوں کو بیدار کرنے لگے۔ حملہ آور کو پکڑنے کی کوشش کی گئی، لیکن اس نے خودکشی کر لی۔ آخری لمحات اور وصیت شدید زخمی ہونے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے گھر لے جایا گیا۔ اس حالت میں بھی آپ نے صحابہ کرام سے پوچھا کہ "مجھے کس نے زخمی کیا ہے؟" جب انہیں بتایا گیا کہ ایک مجوسی غلام نے ایسا کیا ہے، تو آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ آپ کو کسی مسلمان کے ہاتھ شہادت نہیں ملی۔ آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ وہ جائیں اور پتہ لگائیں کہ آپ پر کتنا قرض ہے۔ جب انہیں بتایا گیا کہ قرض کی مقدار کافی زیادہ ہے تو آپ نے فرمایا: "اگر یہ قرض میرے بعد بھی ادا نہ ہو سکے تو میرے قبیلے بنو عدی سے مدد طلب کرنا۔" روضہ رسول میں تدفین کی درخواست یہ وہ لمحہ تھا جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی سب سے بڑی خواہش کا اظہار کیا۔ آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا: "اے میرے بیٹے! ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ اور انہیں میرا سلام کہنا۔ ان سے یہ کہنا کہ عمر آپ سے اجازت چاہتا ہے کہ اسے اپنے دونوں ساتھیوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت دی جائے۔" عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، اس وقت وہ رو رہی تھیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا پیغام پہنچایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: "میں نے یہ جگہ اپنے لیے رکھی ہوئی تھی، لیکن آج میں عمر کو اپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں۔" یہ سن کر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خوشی سے واپس آئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس فیصلے کی اطلاع دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر اللہ کا شکر ادا کیا اور فرمایا: "اس سے بڑی سعادت میرے لیے اور کوئی نہیں ہو سکتی۔" تدفین اور آخری آرام گاہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وصال ہوا، تو انہیں غسل دیا گیا، کفن پہنایا گیا اور نماز جنازہ ادا کی گئی۔ اس کے بعد، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اجازت کے مطابق، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ یوں آپ کو دنیا کی سب سے افضل جگہ پر آرام گاہ ملی۔ یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تواضع، حب رسول اور ان کی شان کو ظاہر کرتا ہے کہ انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ جگہ ملی۔ ؟

About