@failarmy: That squat lasted as long as those shorts 🫣 #workoutfails #weightlifting #funny #fail #failarmy

FailArmy
FailArmy
Open In TikTok:
Region: US
Wednesday 03 September 2025 18:30:00 GMT
165872
2476
18
46

Music

Download

Comments

hudson.mckenzie_
Hudson Mckenzie :
1st
2025-09-03 18:32:05
1
loona_595
Cheesed :
DAMN
2025-09-05 00:36:24
0
officialaustincarter0
AUSTIN :
I'm going to Positively change the lives of 1st 5 people to message me with the word "GRACE”let's end inhumanity, everyone needs to be happy💜
2025-09-03 18:59:57
0
brady_676767
Brady :
First
2025-09-03 18:33:39
0
wendyivy3
Wendy :
Guess those shorts needed a spotter
2025-09-03 18:34:59
152
bradness37
Brad Ness462 :
Always squat in a cage.
2025-09-05 09:06:07
0
dy2nqb4cm1am
luounlong :
😅😅
2025-09-05 12:24:04
0
isaivargas5
Isai Vargas :
🤣🤣🤣
2025-09-04 17:52:27
0
mallorca471
Mallorca :
@Emmanuel
2025-09-04 14:47:42
0
horsy670
HORSY :
😂😂😂
2025-09-03 21:33:06
0
brookereyes12
Brooke Reyes🥎 17 years old :
😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂😂
2025-09-03 20:47:28
0
brookereyes12
Brooke Reyes🥎 17 years old :
😂😂😂
2025-09-03 20:46:52
0
sir31110
Sir :
😂😂😂
2025-09-03 20:02:28
0
user13335006703523
7 :
🌈🌈🌈🌈
2025-09-07 06:57:04
0
migs9260
migs :
I thought this was Rice Gum
2025-09-03 18:43:14
0
To see more videos from user @failarmy, please go to the Tikwm homepage.

Other Videos

سُنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں سو اُس کے شہر میں کچھ دِن ٹھہر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے ربط ہے اُس کو خراب حالوں سے سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اُس کی سو ہم بھی اُس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے اُس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے رات اُسے چاند تکتا رہتا ہے ستارے بامِ فلک سے اُتر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے دن کو اُسے تتلیاں ستاتی ہیں سُنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے حُسن سے اُس کی غزال سی آنکھیں سُنا ہے اُس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اُس کی سُنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے اُس کی سیہ چشمگی قیامت ہے سو اُس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے لب سے گلاب جلتے ہیں اُس کے سو ہم بہار پہ یہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اُس کی جو سادہ دل ہیں اُسے بن سنور کے دیکھتے ہیں سُنا ہے جب سے حمائل ہیں اُس کی گردن میں مزاج اور ہی لعل و گہر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ امکان میں پلنگ زاویے اُس کی کمر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے اُس کے بدن کی تراش ایسی ہے کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں وہ سرو قد ہے مگر بے گلِ مراد نہیں کہ اُس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا سو رہروانِ تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے اُس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں رُکے تو گردشیں اُس کا طواف کرتی ہیں چلے تو اُس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں کسے نصیب کہ بے پیرہن اُسے دیکھے کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں اب اُس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں فرازؔ اے ستارے! سفر کے دیکھتے ہیں احمد فراز  #CAPTION #CAPTION #caption
سُنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں سو اُس کے شہر میں کچھ دِن ٹھہر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے ربط ہے اُس کو خراب حالوں سے سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اُس کی سو ہم بھی اُس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے اُس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے رات اُسے چاند تکتا رہتا ہے ستارے بامِ فلک سے اُتر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے دن کو اُسے تتلیاں ستاتی ہیں سُنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے حُسن سے اُس کی غزال سی آنکھیں سُنا ہے اُس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اُس کی سُنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے اُس کی سیہ چشمگی قیامت ہے سو اُس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے لب سے گلاب جلتے ہیں اُس کے سو ہم بہار پہ یہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اُس کی جو سادہ دل ہیں اُسے بن سنور کے دیکھتے ہیں سُنا ہے جب سے حمائل ہیں اُس کی گردن میں مزاج اور ہی لعل و گہر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ امکان میں پلنگ زاویے اُس کی کمر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے اُس کے بدن کی تراش ایسی ہے کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں وہ سرو قد ہے مگر بے گلِ مراد نہیں کہ اُس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا سو رہروانِ تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے اُس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں رُکے تو گردشیں اُس کا طواف کرتی ہیں چلے تو اُس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں کسے نصیب کہ بے پیرہن اُسے دیکھے کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں اب اُس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں فرازؔ اے ستارے! سفر کے دیکھتے ہیں احمد فراز #CAPTION #CAPTION #caption

About