@as_writesi_786: #سائیں 🥀🥺👇 رزق رکھا ہوا ہے دور اتنا، گھر مقدر سے لوٹتے ہیں ہم… یہ جملہ پردیس والوں کی زندگی کا آئینہ ہے۔ وہ لوگ جو اپنا وطن، اپنا آنگن، اپنے پیارے سب چھوڑ کر صرف دو وقت کی روٹی کے لیے پردیس کی خاک چھانتے ہیں۔ پردیس کی زمین پر قدم رکھنا ایسا لگتا ہے جیسے زندگی کو کسی اجنبی راستے کے حوالے کر دینا۔ وہاں نہ ماں کی دعائیں ساتھ ہوتیں، نہ بہن بھائیوں کی ہنسی، نہ دوستوں کی محفلیں۔ بس ایک اکیلا وجود، دن رات کی مشقت اور بیگانگی کا زہر۔ رزق ملتا بھی ہے تو دل خالی رہتا ہے۔ کیونکہ گھر کی ایک روٹی، ماں کے ہاتھ کا ایک نوالہ، وطن کی مٹی کی خوشبو—یہ سب کسی کرنسی نوٹ میں نہیں ملتے۔ دن محنت میں گزر جاتے ہیں اور راتیں یادوں کے سیلاب میں ڈوب کر۔ پردیس والے ہر رات یہ سوچ کر سوتے ہیں کہ ایک دن واپس جائیں گے، اپنے آنگن میں سکون سے بیٹھیں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جب وہ لوٹتے ہیں تو مقدر ان کے قدموں کے ساتھ ہنسی خوشی نہیں بلکہ تھکن، خاموشی اور اجنبی پن لے آتا ہے۔ گھر بھی بدل چکے ہوتے ہیں، رشتے بھی فاصلے اوڑھ لیتے ہیں۔ پردیس والے اصل میں سب سے زیادہ ٹوٹے ہوئے لوگ ہیں۔ وہ اپنی جوانی پردیس کو دیتے ہیں، اپنی خواہشیں قربان کر دیتے ہیں، مگر بدلے میں صرف تھکن اور آنکھوں کے کونے میں نمی لے کر لوٹتے ہیں۔ 💔